ColumnImtiaz Aasi

1977ء کی تاریخ دہرائی جائے گی؟

امتیاز عاصی
یہ 13مارچ 1977ء کی بات ہے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کا شور و غوغا ہوا تو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی کے پرانے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں راولپنڈی ضلع سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے چیدہ چیدہ رہنمائوں کو طلب کیا جس میں پنجاب کے وزیراعلیٰ نواب صادق حسین قریشی، مولانا کوثر نیازی کے علاوہ سید ذاکر شاہ ایم پی اے اور پیپلز پارٹی مری کے سیکرٹری جنرل اور معروف صحافی جناب جاوید صدیق بھی اجلاس میں شریک تھے۔ انتخابات سے قبل لاڑکانہ سے جماعت اسلامی کے سنیئر رہنما جان محمد عباسی کاغذات نامزدگی جمع کرانے گئے تو انہیں راستے میں غائب کرنے کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف مذہبی جماعتوں ( پی این اے) کی تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اجلاس میں شریک رہنمائوں سے آراء مانگی اس سلسلے میں ہر ایک کو پانچ سے سات منٹ کا وقت دیا گیا۔ جناب جاوید صدیق نے دوبارہ الیکشن کرانے کی تجویز دی جس کی سید ذاکر شاہ نے تائید کی۔ بعض حضرات نے پی این اے کے مقابلے میں جلوس نکالنے کی تجویز دی جسے وزیراعظم بھٹو نے یہ کہہ کر تسلیم نہیں کیا اگر ہم نے بھی جلوس نکالے تو خون خرابے کا امکان ہے اگر دوبارہ انتخابات کرائے تو دھاندلی کا الزام ثابت ہو جائے گا۔ چنانچہ یہ اجلاس کسی حتمی نتیجہ پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا۔ پی این اے کی تحریک کے نتیجہ میں جو کچھ ہوا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا المناک باب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حکومتی مشینری کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سے انتخابات متنازعہ بن گے۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر شب خون مارنے کے بعد آئین میں نگران سیٹ اپ کی شق کا اضافہ کیا جس کا مقصد ملک میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا انعقاد تھا جو احسن اقدام تھا۔ ملک میں جو حالات اس وقت ہیں امیدواروں سے کاغذات چھیننا اور ان کی پکڑ دھکڑ سے الیکشن کا انعقاد مشکوک ہوتا جا رہا ہے گویا کہ ایک عجیب تماشا لگا ہوا ہے۔ ہمارا کسی جماعت سے کوئی لینا دنیا نہیں لیکن الیکشن سے پہلے جو اقدامات ہو رہے ہیں ان سے منصفانہ اور شفاف انتخابات کی امید ماسوائے خام خیالی کے کچھ نہیں ۔ یہ اور بات ہے جن امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے ہیں ان کی اپیلوں کی سماعت کا مرحلہ آگیا ہے جس کے بعد عدالتی ٹریبونل امیدواروں کی ایپلوں کا فیصلہ کریں گے۔ الیکشن کو وقت ہی کیا رہ گیا ہے ایک ماہ اور چند روز باقی ہیں۔ ملک میں جس طرح کے حالات ہیں ہمیں آئندہ ماہ انتخابات ہونے کی امید نہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے میں دہشت گردی اور مولانا فضل الرحمان کے کانوائے پر فائرنگ جیسے واقعات الیکشن بارے شکوک پیدا کر رہے ہیں۔ فائرنگ کے واقعہ کے بعد جے یو آئی کے ترجمان کا کہنا ہے ان حالات میں شفاف انتخابات کا انعقاد مشکل ہے جو اس امر کا غماز ہے بعض حلقے الیکشن کو التواء میں رکھنے کے خواہاں ہیں۔ مسلم لیگ نون نے ابھی تک امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے مسلم لیگ نون انتخابات سے راہ فرار چاہتی ہے۔ ویسے بھی نگران حکومت میں اکثریت مسلم لیگ نون کے حامی وزراء کی ہے جن کی موجودگی میں منصفانہ الیکشن ناممکن ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو یکجا کرنے کا طریقہ کار کوئی نئی بات نہیں ہے یہ کام ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس کا ہونا یقینی بات ہے۔
تعجب ہے آئین میں منصفانہ اور شفاف الیکشن کی ذمہ داری نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کے ذمے ہے نگران حکومت الیکشن کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں بلکہ سارا بوجھ الیکشن کمیشن پر ڈال رہی ہے۔ یہ بات درست ہے الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے تاہم امیدواروں سے کاغذات چھیننے کے جو واقعات ہوئے ہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کاغذات چھیننے والوں کے خلاف کارروائی نگران حکومت کی ذمہ داری تھی یا الیکشن کمیشن نے یہ کام کرنا تھا۔ ہمارا ماضی اس بات کا گواہ ہے کسی مقبول سیاسی رہنما کو انتخابات سے باہر نکالنے کی کوشش کم ہی کامیاب ہوتی ہے۔ صدر غلام اسحاق خان کے دور میں بے نظیر بھٹو کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے۔ چنانچہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976میں ترمیم کرکے انفرادی طور پر ہر ووٹر کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ملک بھر میں کسی بھی امیدوار کے کاغذات نامزدگی کو چیلنج کر سکتا ہے۔ جس کے بعد ایک عام شہری سے بے نظیر بھٹو کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض ہوا لیکن بعد ازاں عدلیہ سے بی بی کو ریلیف مل گیا۔ یہ جو آج کھیل کھیلا جا رہا ہے عوام سے ڈھکا چھپا نہیں بلکہ باہر کے ملکوں سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ انتخابات سے قبل سیاسی رہنمائوں اور خصوصا ایک جماعت کے رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی چھیننے اور ان کی گرفتاریاں انتخابات کے انعقاد کو مشکوک بنانے کے لئے کافی ہیں۔ ملک میں عدلیہ اور انتظامی افسران کی نگرانی میں انتخابات کے انعقاد کا تجربہ کئی بار ہو چکا ہے۔ تعجب ہے مسلم لیگ نون کے بعض کاسہ لیس اس ساری پکڑ دھکڑ کو سانحہ نو مئی سے جوڑ رہے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہم سانحہ نو مئی میں ملوث خواہ مرد ہوں یا خواتین سب کے خلاف ہیں انہیں اپنے کئے کی سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن یہ کہنا آج عمران خان یا ان کی جماعت کے ساتھ ہو رہا ہے وہ انہیں اپنے کئے کی سزا مل رہی ہے تو یہ بات حقیقت کے منافی ہے۔ سوال ہے پی ٹی آئی کے جن امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھینے گئے وہ سانحہ نو مئی میں ملوث تھے؟ دراصل یہ سارا کھیل عوام کو ان کے نمائندے منتخب کرنے سے روکنے کی طرف پیش رفت ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی سر توڑ کوشش کی پیپلز پارٹی کا وجود ختم ہو گیا؟۔ غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے کسی جماعت کا راستہ ممکن نہیں ایسی جماعت جس کے ساتھ عوام کی اکثریت ہو محض خواب ثابت ہوگا۔ ہمیں خدشہ کہیں بھٹو دور کی تاریخ تو نہیں دہرائی جائے گی۔ انتخابات شفاف نہ ہوئے تو اللہ نہ کرے ہمارا ملک سیاسی اور معاشی بحران کا شکار نہ ہو جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button