Columnمحمد مبشر انوار

2025۔وقت قریب ہے! .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال دیکھ کر دماغ ماضی کے دریچوں میں جھانکنے پر مجبور ہو گیا اور 12جون 2004کی لکھی تحریر کی شبیہ ذہن میںاُبھر آئی ،سوچا اپنے قارئین کے ساتھ پھر شیئر کی جائے۔ پرویز مشرف کا دور تھااور پاکستان فرد واحد کے اقتدار کی خاطر پرائی آگ میں ایسا کودا کہ آج تک ہوس اقتدار کے اندھے ،اسی کو تاج سمجھتے ہوئے سر پر سجائے چلے جا رہے ہیں۔ ذہنی غلامی کا تسلسل ہے کہ ہمارے سیاستدان اور مقتدر ،عالمی طاقتوں کے اشاروں پر ناچتے نظر آتے ہیں،کم ازکم حاجی صاحب کے اقدامات سے یہ تاثر مزید پختہ تر ہو چکا جبکہ موجودہ قیادت ابھی اپنی صفیں ترتیب دے رہی ہے،لہٰذا کچھ کہناقبل از وقت ہو گا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مرحوم جنرل حمید گل،اس عہدے کی تعیناتی کے متعلق اپنے بیشتر انٹرویوز میںکھل کر اظہار رائے کر چکے ہیں جس کے پس پردہ محرکات ممکنہ طور پر ان کو اہلیت کے باوجود امریکی اجازت نہ ملنے یاامریکی ناراضگی مول نہ لینے کی خاطر ،آرمی چیف نہ بنانا رہا ہولیکن اس میں کچھ نہ کچھ حقیقت بہرطور موجود رہی ہے۔اپنی تحریر کے چند اقتباس اور آج کی صورتحال قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
’’عالمی و ملکی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے بیشتر قارئین پلان 2025سے بخوبی واقف ہیں ،کہ دشمنان اسلام و پاکستان ،کے پاکستان سے متعلق عزائم اس پلان کا حصہ ہیں۔ اس پلان کے مطابق 2025تک پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر مختلف اکائیوں میں منقسم ہے۔ پاکستان دشمن عناصر اپنے مقاصد کی تکمیل میں مسلسل مصروف عمل ہیں اور بظاہر کامیابی ان کے قدم چومتی نظر آتی ہے(نعوذ باللہ) مگر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے سے بلی کی موجودگی ختم نہیں ہوتی، سو یہی حال پاکستان کے ساتھ بھی ہے اگر حکمران یا ہم بلی کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں بند رکھ کر یہ تصور کر لیں کہ بلی موجود نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقتاً بھی موجود نہیں بلکہ اس طرح خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
پلان 2025پر عملدرآمد میری نظرمیں پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی لاشعوری طور پر شروع ہو چکا ہے اور اس کے ایک حصے پر کامیابی سے عملدرآمد 1971میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ہو چکا ہے، جس کے بعد دشمنان اسلام اور پاکستان نے اپنے باقی ماندہ پروگرام پر شعوری طور پر زیادہ زور و شور سے عمل شروع کر رکھا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کے حصے بخرے کرنا اتنا مشکل کام نہیں جتنا وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل تصور کر رہے تھے ،کہ وہ قوم جس نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر دنیا کی دو عیار ترین اقوام سے اپنا حق حاصل کیا تھا ، اتنی آسانی اور اتنی جلدی اپنا ایک بازو کاٹ کر ان کے مقاصد کی تکمیل کی راہ ہموار کر دے گی۔اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ۹ ستمبر کا واقعہ بھی اسی پلان کی تکمیل کا ایک بنیادی اہم جزو تھا جس کی آڑ لے کر مسلمان ممالک کو نیست و نابود کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں ،جو خود کو اسلام کا قلعہ یا نظریاتی ریاست کہلواتے ہیں ،نے ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘کا نعرہ بلند کر کے خود ہی اسلامی دنیا میں اپنے آپ کو یکہ و تنہا کرنے کی بنیاد فراہم کر دی، جس کے اثرات اس قوم کو جلد یا بدیر بھگتنے ہوں
گے لامحالہ اس دوران کوئی غیر معمولی واقعہ مسلمانوںکی اور پاکستان کی حفاظت نہیں کرتا یا حکمران طبقے میں کوئی اس نعرے کے اثرات کو زائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا اور اس کے ساتھ ساتھ صحیح اور مدبر قیادت پاکستان کو میسر نہیں آتی، خطرات پاکستان کی سالمیت پر منڈلاتے رہیں گے۔فی الوقت حکمران طبقے سے اس کی امید کرنا عبث ہے ماسوائے ایک امید کے ، ایک فطرتی اصول کے ، جس کے مطابق ہر عروج کو زوال ہے اور اس وقت غیر مسلم (میری دانست میں)اپنے انتہائی نکتہ عروج کو چھو رہے ہیںجس کے بعد زوال ہی ہے۔ غیب کا علم بے شک اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات بہتر جانتی ہے مگر زمینی حقائق کی روشنی میں ناچیز صرف اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے،لیکن میں اس صورتحال میں مایوس بھی نہیں ہوں کہ مایوسی گناہ ہے اور ہمیں بحیثیت مسلمان اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اپنے طور پر اصلاح احوال کی کوشش جاری رکھنی چاہئے،لیکن آج صورتحال حقیقتاً یہ نہیں رہی بلکہ یہ خطہ پراکسی وار کی زد میں بری طرح آ چکا ہے اور یہاں دشمن ممالک کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اور ان کے تربیت یافتہ فوجی و سول افراد پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ ان کے خلاف آپریشن پاکستان کی بقا کیلئے ضروری تھا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری اشرافیہ اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔‘‘
یہ حالات 2016تک کی تصویر کشی کر رہے ہیں کہ یہی تحریر 2016میں بھی شائع ہوئی تھی لیکن آج اس کی صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور اس وقت مقاصدبزور کی بجائے دیگر عوامل میں مداخلت کرکے حاصل کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی مراسلہ کے حوالے سے مداخلت کو دو مرتبہ تسلیم کر چکی ہے تاہم سکیورٹی کمیٹی کے نزدیک گذشتہ حکومت کے خلاف سازش نہیں ہوئی،خیر اب تو سابقہ متاثرہ حکومت بھی اس گمان کو بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے ۔ اس کے نزدیک جو عوامی مقبولیت اسے میسر ہو گئی ہے،اس کے بعد یہ سازش؍مداخلت اسے بہت راس آ چکی ہے لہٰذا اب تحریک انصاف فوری طور پر نئے انتخابات کی متمنی ہے لیکن ہنوز چائے کے کپ اور ہونٹوںکے درمیان میلوں کا فاصلہ ہے اور فریقین مسلسل سیاسی داؤ پیچ استعمال کر رہے ہیں۔البتہ اس دوران جو اہم ترین تبدیلیاں ہوئی ہیں،ان تبدیلیوں نے ریاست پاکستان کو انتہائی مشکل حالات سے دوچار کر رکھا ہے،خزانہ خالی ہونے کا شور وغوغا ماضی میں تو صرف سیاسی ہوتا تھا لیکن اس وقت حقیقتاً پاکستانی خزانے کی حالت انتہائی پتلی ہے ۔ بے تحاضہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے خزانے میں اس وقت ،پاکستان کے اپنے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ڈالرز خزانے میں موجود ہیں،انہیں ریاست پاکستان استعمال کرنے سے قاصر ہے کہ یہ دوست ممالک کی طرف سے صرف خزانے میں رکھنے کیلئے دئیے گئے ہیں۔ ماہرین معیشت اس پر مسلسل اور تفصیلا گفتگو کر رہے ہیں کہ کس طرح پچھلے سات آٹھ ماہ میں پاکستانی زر مبادلہ کے ذخائر بیدردی سے لٹائے جا چکے ہیں اور کن پالیسیوں کے تحت پاکستانی برآمدات کو قدغنوں کا سامناہے۔خام مال درآمد کرنے کیلئے سٹیٹ بنک کے پاس ایل سی کھولنے کیلئے ڈالرز موجود نہیں ،لہٰذا مقامی صنعتکاروں کیلئے اپنی پیداوار کو جاری رکھنا یا بیرون آرڈرز کی بروقت تکمیل ایک دردسر بن چکی ہے۔اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی اونچی اڑان نے پیداواری لاگت کو تخمینوں سے کہیں زیادہ کر دیا ہے اور صنعتکاروں کیلئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ ان آرڈرز کی بروقت ترسیل کر سکیں۔ طرہ تماشہ یہ کہ صنعتوں کو مہنگی ترین بجلی کی مسلسل ترسیل بھی ممکن نہیں رہی کہ صنعت کا پہیہ مسلسل چل سکے۔ریاستیں غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کیلئے اپنی برآمدات کو بڑھاتی ہیں، ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ،کوئی نہ کوئی ایسی پراڈکٹ ایسی رکھتی ہیں کہ جس کی وجہ سے برآمدات مسلسل جاری رہیں جبکہ پاکستان،جو ایک وقت میں کئی ایک اشیاء ،ٹیکسٹائل،سرجیکل مصنوعات، سپورٹس اشیاء اور دیگر کئی ایک شعبہ جات زندگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا،آج عالمی مارکیٹ میں اپنا نام اور مقام کھو چکا ہے۔گذشتہ حکومت نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی برآمدات کے حوالے سے قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھااور پاکستانی برآمدات کو تقریبا اکتیس بلین ڈالر تک لے جانے میں کامیاب رہی تھی،آج یہ برآمدات بہت کم سطح پر آ چکی ہے۔ دوسری طرف ماضی میں لیے گئے بے تحاشہ قرضوں کی واپسی کا وقت بھی سر پر کھڑا ہے لیکن حکومت کی پالیسی کے مطابق برآمدات کی بجائے،ان قرضوں کی واپسی ریاستی اثاثہ جات کو بیچ یا ملک کو ڈٹفالٹ کروا کرکی جائے گی،ان اثاثہ جات میں ’’انتہائی قیمتی اور دفاعی اثاثہ جات‘‘کی فروخت یا کسی اور کے کنٹرول میں دیا جانا بھی ہو سکتا ہے؟اگر ایسا ہوتا ہے تو یو کرین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جس نے اپنے دفاعی اثاثہ جات سے دستبرداری اختیار کی اور آج اس کی حالت کیا ہے؟
2004میں حالات کے پس منظر میں یہ غالب امکان تھا کہ عالمی طاقتیں پاکستان کو جغرافیائی اعتبار سے گھیر کر اسے بے دست و پا کیا جائے گا ،تاہم اس میں ناکامی کے امکانات کو مد نظر رکھتے ہوئے پس پردہ بے تحاشہ قرضوں کے حصول میں جکڑ کی متبادل انتظام بھی کیا جا چکا ہے ۔ ایٹمی پاکستان غیر مسلموں کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتا ہے اوراس سے محروم کرنے کیلئے پلان 2025کے حصول کا وقت قریب تر آ چکا ہے جبکہ پاکستان اپنے اندرونی سیاسی اختلافات میں الجھا ہوا،اس سے بے خبر ہے یا باخبر اور اس کی پلان کی ناکامی کیلئے سرگرم ہے یا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button